حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/سید المرسلین خاتم الانبیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث برسالت ہونے کی مناسبت سے جامعة المنتظر ماڈل ٹاﺅن میں جشن کا اہتمام کیا گیا۔ جس سے مولانا امجد علی عابدی اور مولانا سید غلام شبیر نجفی نے خطاب کیا۔
علماء کرام نے بعثت کے موضوع پر آیاتِ قرآنی کی روشنی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اکرم کے اعلان نبوت سے قبل عرب معاشرہ کی اخلاقی، معاشرتی، سماجی و دینی زبوں حالی و ذلّت کی کیفیت جناب سیدہ فاطمة الزہراءنے اپنے عظیم ترین بابا کی رحلت کے چند دن بعد خطبہ میں بیان فرمائی تھی۔ رسول اکرم ص اُسی گمراہ و زبوں حال معاشرے میں حُکمِ خُدا سے 40سال خاموش رہے جو کہ بہت مشکل کام تھا۔اپنا خاموش کردار پیش کیا جس کے لوگ گرویدہ ہوئے۔بعثت درحقیقت نبوت و رسالت کی عملی ذمہ داریوں کا اعلان تھا جس کے بعد آپ نے بھٹکی انسانیت کی فلاح و نجات کے لئے شبانہ روز انتھک جدوجہد کی اور تکالیف برداشت کیں ۔فرمایا :جس قدر مجھے ستایا گیا اتنا کسی نبی کو نہیں ستایا گیا۔
انہوں نے کہا سورہ مبارکہ آل عمران آیت ۴۶۱ میں ارشاد ہوا: ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اُس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے“ عام طور پر کسی پر احسان جتلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن حضور پاک کو انسانوں کی ہدایت و نجات کے لئے بھیجنا اس قدر اہم اور بہت بڑا احسان ہے کہ اس کی اہمیت واضح کرنے کے لئے اسے اللہ کا بڑا احسان قرار دیا کیونکہ اس سے پہلے لوگ صریح گمراہی کا شکار تھے۔
سورہ مبارکہ آلِ عمران کی مذکورہ آیت کے علاوہ سورہ مبارکہ جمعہ کی دوسری آیت میں بھی بعثت کا مقصد اس طرح بیان کیا گیا: وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجاجو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے“۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ سورہ جمعہ کی پہلی آیت میں اللہ نے آسمان و زمین کی ہر شے کی اللہ کے لئے تسبیح کے ذکر کے ساتھ اپنی چار صفات بیان فرمائیں کہ وہ بادشاہ ، نہایت پاکیزہ،بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے ۔
اس کے بعد دوسری آیت میں اپنے رسول کی بھی چار صفات بیان فرمائیں۔ حضور نے اپنی بعثت کا ایک اہم ہدف اپنی معروف حدیث میں یوں بیان فرمایا مجھے( انسانوں کے) اخلاق و کردار کی خوبیوں کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا۔اس ہدف کے حصول کے لئے آپ نے ۳۲ سال زحمات برداشت کیں اور اپنے بعد قرآن و اپنے اہلبیتؑ سے تمسّک کو لازم قرار دے کر گمراہی سے بچنے کی ضمانت دی۔